minority residential schools

Minority Residential Schools: Dreams Unfulfilled, Future Blighted,

اضلاع کی خبریں تلنگانہ
Minority Residential Schools: Dreams Unfulfilled, Future Blighted,
Proportion of Muslim students drops from 70% to 40%, teachers’ salaries cut, non-Muslim students’ admissions increase
Poor parents worried again. Urgent measures are essential.

اقلیتی رہائشی اسکولز: خواب ادھورا، مستقبل مخدوش

مسلم طلبہ کا تناسب 70 فیصد سے گھٹ کر 40 فیصد، اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتی، غیر مسلم طلبہ کو بڑھتے داخلے 

غریب والدین پھر فکرمند۔ فوری اقدامات ناگزیر ۔

 

حیدرآباد/ورنگل:-18/ستمبر
(دستور نیوز ڈاٹ کام/راست)

سینیئر سیاسی و سماجی کارکن محمد عبد القدوس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 2014 میں ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد اُس وقت کی حکومت نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے تلنگانہ مائناریٹیز ریزیڈنشل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز سوسائٹی (TMREIS) کے تحت سینکڑوں رہائشی اسکولز اور کالج قائم کیے تھے تاکہ غریب مسلم بچوں کو معیاری تعلیم کے ساتھ رہائش، طعام اور تربیت فراہم کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ 2018 تک ریاست کے تقریباً ہر اسمبلی حلقے میں 204 اقلیتی رہائشی اسکولز قائم ہو گئے تھے، جن میں نصف لڑکیوں کے لیے مخصوص تھے۔ داخلوں میں مسلمانوں کا تناسب 70 فیصد سے زائد رہا جسے ایک ’’سماجی انقلاب‘‘ قرار دیا گیا۔ ہزاروں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو تدریسی و انتظامی خدمات کے مواقع بھی فراہم ہوئے۔تاہم، کئی اسکول کرایہ کی عمارتوں میں چلائے گئے جس سے بجٹ کا بڑا حصہ کرایوں پر خرچ ہوا۔ عملے اور اساتذہ کی زیادہ تر تقرریاں آؤٹ سورسنگ ایجنسیوں کے ذریعے ہوئیں، جبکہ مستقل بھرتیوں میں تاخیر نے تدریسی عملہ کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا۔

محمد عبد القدوس نے کہا کہ 2023 کے بعد سیاسی تبدیلی کے نتیجہ میں حالات یکسر بدل گئے۔ مسلم طلبہ کا تناسب گھٹ کر 70 فیصد سے صرف 40 فیصد رہ گیا ہے جبکہ عوامی نمائندوں کے دباؤ پر غیر مسلم طلبہ کے داخلے 60 فیصد تک بڑھ گئے۔ اس طرح جہاں مسلمان ایس سی، ایس ٹی اور بی سی رہائشی اداروں میں داخلہ نہیں لے سکتے، وہیں غیر مسلم طلبہ کو اقلیتی اداروں میں باآسانی داخلہ دیا جا رہا ہے۔انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ آؤٹ سورس اساتذہ کی تنخواہیں 30 ہزار روپے سے گھٹا کر صرف 18 ہزار روپے کر دی گئی ہیں اور کئی مسلم نوجوان اساتذہ کو برطرف کر کے مستقل عملہ تعینات کیا گیا ہے، جس سے اقلیتی نوجوانوں کے روزگار کے مواقع سکڑ گئے ہیں۔ اس صورتحال نے اساتذہ کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر اقلیتی ادارے خود اقلیتوں کو فائدہ نہ پہنچا سکیں تو ان کا وجود ہی بے مقصد ہو جائے گا۔ اقلیتی بہبود کے بجٹ کا بڑا حصہ غیر مسلم طلبہ پر خرچ ہونا دراصل مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ اس وقت غریب والدین اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں سخت فکرمند ہیں۔

محمد عبد القدوس کے مطابق ماہرین اور سماجی تنظیموں نے سفارش کی ہے کہ داخلوں میں اقلیتی تناسب کم از کم 70 فیصد بحال کیا جائے۔آؤٹ سورس اساتذہ کی تنخواہیں دوبارہ 30 ہزار روپے مقرر کی جائیں۔شفاف اور منصفانہ بھرتی پالیسی بنائی جائے۔اقلیتی بہبود کے بجٹ کو اصل مقصد یعنی اقلیتوں کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے۔عبد القدوس نے اپنے بیان میں کہا کہ اقلیتی رہائشی اسکولز ایک وقت میں مسلمانوں کے لیے امید کا چراغ تھے اور دیگر ریاستیں بھی اس ماڈل کو اپنانے پر غور کر رہی تھیں۔ لیکن آج یہ ادارے ایک سنگین موڑ پر کھڑے ہیں۔ اگر فوری اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو یہ تاریخی اسکیم سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو کر اپنے اصل مقصد سے محروم ہو جائے گی۔

محمد عبد القدوس نے حکومت کو اس ضمن میں توجہ دہانی دلاتے ہوئے زور دے کر کہا اگر حکومت فوری طور پر اقلیتی طلبہ کے لیے 70 فیصد کوٹہ بحال نہ کرے اور اساتذہ کی تنخواہیں واپس نہ بڑھائے تو یہ ادارے اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔ یہ اسکول مسلمانوں کے خواب تھے ، انہیں مایوسی میں بدلنے نہ دیا جائے۔